EN हिंदी
دوست سے خواہ وہ عدو سے ملے | شیح شیری
dost se KHwah wo adu se mile

غزل

دوست سے خواہ وہ عدو سے ملے

تنویر دہلوی

;

دوست سے خواہ وہ عدو سے ملے
نہ ہوئے ہم تو پھر کسو سے ملے

ساتھ اس کے پلے ہیں لاکھوں دل
کیوں نہ رنگ حنا لہو سے ملے

واہ یہ شکل یہ دغا بازی
دل کسو کا لیا کسو سے ملے

ویسے ہی حسرتوں کے خون ہوئے
ان سے تھے جیسے آرزو سے ملے

لو گئے تھے نماز کو تنویرؔ
مے کدہ کے ہیں روبرو سے ملے