دوست سے خواہ وہ عدو سے ملے
نہ ہوئے ہم تو پھر کسو سے ملے
ساتھ اس کے پلے ہیں لاکھوں دل
کیوں نہ رنگ حنا لہو سے ملے
واہ یہ شکل یہ دغا بازی
دل کسو کا لیا کسو سے ملے
ویسے ہی حسرتوں کے خون ہوئے
ان سے تھے جیسے آرزو سے ملے
لو گئے تھے نماز کو تنویرؔ
مے کدہ کے ہیں روبرو سے ملے
غزل
دوست سے خواہ وہ عدو سے ملے
تنویر دہلوی