EN हिंदी
دوست کے شہر میں جب میں پہنچا شہر کا منظر اچھا تھا | شیح شیری
dost ke shahr mein jab main pahuncha shahr ka manzar achchha tha

غزل

دوست کے شہر میں جب میں پہنچا شہر کا منظر اچھا تھا

راسخ فارانی

;

دوست کے شہر میں جب میں پہنچا شہر کا منظر اچھا تھا
لعل و گہر سے بھی اس کی دہلیز کا پتھر اچھا تھا

بارش دھوپ کی بات جدا تھی لا محدود مسافت میں
ننگے سر پر جیسا بھی تھا گنبد بے در اچھا تھا

کس لہجے کن لفظوں میں شہکار ازل کی بات کروں
دنیا بھر کے فن پاروں سے خاک کا پیکر اچھا تھا

چمک دمک کے مکر سے نکلے کرب کے بندھن ٹوٹ گئے
شام جدائی کے مہتاب سے صبح کا اختر اچھا تھا

جانے کس لالچ میں آ کر سر کا سایہ بیچ دیا
مینہ میں بھیگے یاد آیا تنکوں کا چھپر اچھا تھا

پلکوں سے ہر زخم سیا تھا اک انجانے محسن نے
سنگ زنوں کی نگری میں بھی کوئی رفو گر اچھا تھا

راسخؔ سوندھی مٹی کی ایوانوں میں مہکار کہاں
روزن روزن جھانک کے دیکھا کچا ہی گھر اچھا تھا