EN हिंदी
دوست جتنے بھی تھے مزار میں ہیں | شیح شیری
dost jitne bhi the mazar mein hain

غزل

دوست جتنے بھی تھے مزار میں ہیں

کاوش بدری

;

دوست جتنے بھی تھے مزار میں ہیں
غالباً میرے انتظار میں ہیں

وہ نہ ہوتے مرا وجود نہ تھا
میں نہ ہوتا وہ کس شمار میں ہیں

شاخ ادراک میں جو کانٹے ہیں
پھول بننے کے انتظار میں ہیں

کیا سبب ہے کہ ایک موسم میں
کچھ خزاں میں ہیں کچھ بہار میں ہیں

ایک شاعر بنا خدائے سخن
جو رسول سخن تھے غار میں ہیں

خار سمجھو نہ تم انہیں ہرگز
سانپ کے دانت گل کے ہار میں ہیں

شمر و فرعون کب ہوئے مرحوم
ان کے اوصاف رشتے دار میں ہیں

سب کے سب کاوش فرشتہ خصال
عیب جتنے ہیں خاکسار میں ہیں