دوست بن کر بھی کہیں گھات لگا سکتی ہے
موت کا کیا ہے کسی روپ میں آ سکتی ہے
ان مکانوں میں یہ دھڑکا سا لگا رہتا ہے
اگلی بارش در و دیوار گرا سکتی ہے
تیرا دن ہو کہ مری رات نہیں رک سکتے
اپنے محور پہ زمیں خود کو گھما سکتی ہے
ایسی ترتیب سے روشن ہیں تری محفل میں
ایک ہی پھونک چراغوں کو بجھا سکتی ہے
میرا فن میرے خد و خال پہ تقسیم ہوا
میری بینی مری تصویر بنا سکتی ہے
فطرتاً اس کی مہک چاروں طرف پھیلے گی
پھول سے موج صبا شرط لگا سکتی ہے
خوش نہ ہو اتنا کہ یوں روشنیاں پھوٹ پڑیں
اس چکا چوند میں بینائی بھی جا سکتی ہے
گدگداہٹ میں نسیمؔ اس نے نہیں سوچا تھا
یہ ہنسی ٹوٹ کے بچے کو رلا سکتی ہے

غزل
دوست بن کر بھی کہیں گھات لگا سکتی ہے
نسیم عباسی