EN हिंदी
دوست اپنے ہیں لوگ اپنے ہیں | شیح شیری
dost apne hain log apne hain

غزل

دوست اپنے ہیں لوگ اپنے ہیں

ساجد پریمی

;

دوست اپنے ہیں لوگ اپنے ہیں
جھوٹ پر جن کے ہونٹ کپنے ہیں

خوش رہیں گے وہ دوست تم سے بھی
سامنے ان کے نام جپنے ہیں

یہ ادھیکار آپ کب دیں گے
کچھ ہمارے بھی یار سپنے ہیں

لکھ رہے ہو جو جھوٹ کاغذ پر
کیا رسالوں میں لیکھ چھپنے ہیں

اور کچھ خاک چھاننی ہوگی
پنڈلیوں میں سفر سڑپنے ہیں

تم کو حیرت نہیں ہے حیرت ہے
اس زمانے میں لوگ اپنے ہیں

سوچ کندن بنے گی پھر ساجدؔ
ذہن میں کچھ وچار تپنے ہیں