EN हिंदी
دوش ہوا پہ تنکوں کا یہ آشیانہ کیا | شیح شیری
dosh-e-hawa pe tinkon ka ye aashiyana kya

غزل

دوش ہوا پہ تنکوں کا یہ آشیانہ کیا

محسن زیدی

;

دوش ہوا پہ تنکوں کا یہ آشیانہ کیا
جس کو اجڑ ہی جانا ہے وہ گھر بسانا کیا

ہم کو چھپا رہے ہو یہ آخر ہمیں سے کیوں
ہم سے ملا رہے ہو ہمیں غائبانہ کیا

ہم کون جزو خاص کسی داستاں کے تھے
کیسا ہمارا ذکر ہمارا فسانہ کیا

آنکھوں میں اشک روک لیے اس خیال سے
مٹی میں موتیوں کا لٹائیں خزانہ کیا

وہ بزم دوستاں نہ وہ اب کوئے دلبراں
باہر نکل کے گھر سے کہیں آنا جانا کیا

مقصد یہ کیا نہیں ہے کہ دشمن کو ہو شکست
یہ جنگ ہو رہی ہے کوئی دوستانہ کیا

جب سب یہاں خموش ہیں دیوار کی طرح
پھر سننا کیا کسی سے کسی کو سنانا کیا

محسنؔ کہیں بھی لے کے ہمیں آب و دانہ جائے
اپنا یہاں پہ ٹھور کوئی کیا ٹھکانا کیا