EN हिंदी
دو جہاں سے ماورا ہو جائے گا | شیح شیری
do-jahan se mawara ho jaega

غزل

دو جہاں سے ماورا ہو جائے گا

اسد بھوپالی

;

دو جہاں سے ماورا ہو جائے گا
جو ترے غم میں فنا ہو جائے گا

درد جب دل سے جدا ہو جائے گا
ساز ہستی بے صدا ہو جائے گا

دیکھیے عہد وفا اچھا نہیں
مرنا جینا ساتھ کا ہو جائے گا

بے نتیجہ ہے خیال ترک راہ
پھر کسی دن سامنا ہو جائے گا

اب ٹھہر جا یاد جاناں رو تو لوں
فرض تنہائی ادا ہو جائے گا

لحظہ لحظہ رکھ خیال حسن دوست
لمحہ لمحہ کام کا ہو جائے گا

ذوق عزم با عمل درکار ہے
آگ میں بھی راستہ ہو جائے گا

اپنی جانب جب نظر اٹھ جائے گی
ذرہ ذرہ آئینہ ہو جائے گا