دو ایک سال ہی اک سے سراہی جاتی ہے
اسی طرح سے ہمیشہ تو چاہی جاتی ہے
''کریں نہ بیاہ، ملیں، سکھ سہائیں فلسفہ خوب''
ترے بزرگوں کی سب کج کلاہی جاتی ہے
ہے تجھ میں مجھ سے بگاڑ اب اک اور کے آگے
تری سکھی تری دینے گواہی جاتی ہے
براجے گھر میں مجھے چاہے تجھ کو بہکائے
لے تیری بہن کی اب سربراہی جاتی ہے
تضاد ذات میں ضلعے الگ وچن بے کار
لگن تو تیاگ کے جیون نباہی جاتی ہے
ترے سریر کو کیسے ملے سہاگ کا سکھ
تو اپنے آپ ہی دن رین بیاہی جاتی ہے
دعا سلام چلا میں کہ میرے ہونے سے
ترا وقار تری خود نگاہی جاتی ہے
غزل
دو ایک سال ہی اک سے سراہی جاتی ہے
ناصر شہزاد