دو بادل آپس میں ملے تھے پھر ایسی برسات ہوئی
جسم نے جسم سے سرگوشی کی روح کی روح سے بات ہوئی
دو دل تھے اور ایک سا موسم جس کی سخاوت ایسی تھی
میں بھی اک برکھا میں نہایا وہ بھی ابر صفات ہوئی
اس کے ہاتھ میں ہاتھ لیے اور دھوپ چھاؤں میں چلتا ہوا
یوں لگتا تھا ساری دنیا جیسے میرے ساتھ ہوئی
ساری عمر سراغ نہ ملتا اپنے ہونے نہ ہونے کا
یہ اک لہر لہو کی جاناں دونوں کا اثبات ہوئی
اس موسم نے جاتے جاتے اک دو پل کی بارش کی
پھر وہی حلقہ پاؤں میں آیا پھر وہی گردش ساتھ ہوئی
غزل
دو بادل آپس میں ملے تھے پھر ایسی برسات ہوئی
رضی اختر شوق