دیے سے یوں دیا جلتا رہے گا
اجالا پھولتا پھلتا رہے گا
نہیں ہے بانجھ آوازوں کی دھرتی
صداؤں کا نسب چلتا رہے گا
سکوں ہو بحر میں یا ہو تلاطم
گہر تو سیپ میں پلتا رہے گا
زمیں پر بارشیں ہوتی رہیں گی
سمندر ابر میں ڈھلتا رہے گا
نہ باز آئے گا غفلت سے بھی انساں
کف افسوس بھی ملتا رہے گا
چھپاؤ گے اگر گلزارؔ خود کو
وجود اپنا تمہیں کھلتا رہے گا
غزل
دیے سے یوں دیا جلتا رہے گا
گلزار بخاری