دیے سے لو نہیں پندار لے کر جا رہی ہے
ہوا اب صبح کے آثار لے کر جا رہی ہے
ہمیشہ نوچ لیتی تھی خزاں شاخوں سے پتے
مگر اس بار تو اشجار لے کر جا رہی ہے
میں گھر سے جا رہا ہوں اور لکھتا جا رہا ہوں
جہاں تک خواہش دیدار لے کر جا رہی ہے
خلا میں غیب کی آواز نے چھوڑا ہے مجھ کو
میں سمجھا تھا مجھے اس پار لے کر جا رہی ہے
مجھے اس نیند کے ماتھے کا بوسہ ہو عنایت
جو مجھ سے خواب کا آزار لے کر جا رہی ہے
یہاں پر رات کو اچھا نہیں کہتا ہے کوئی
سو اپنے کاسہ و دینار لے کر جا رہی ہے
تماشے کے سبھی کردار مارے جا چکے ہیں
کہانی صرف اک تلوار لے کر جا رہی ہے
غزل
دیے سے لو نہیں پندار لے کر جا رہی ہے
غزالہ شاہد