دیے پلکوں کے سارے بجھ رہے ہیں
سر شب ہی ستارے بجھ رہے ہیں
ان آنکھوں نے جنہیں روشن کیا تھا
وہ سب منظر ہمارے بجھ رہے ہیں
بہت کم ہو چلی ہے آتش خاک
زمیں تیرے شرارے بجھ رہے ہیں
سیاحت ہاتھ مل کر رہ گئی ہے
سر ساحل شکارے بجھ رہے ہیں
پئے شب سیر آیا بھی کہاں میں
جہاں سارے نظارے بجھ رہے ہیں
نہ ہلچل ہے نہ کوئی موج بوسہ
سمندر کے کنارے بجھ رہے ہیں
میں یخ بستہ ہوا جاتا ہوں افسرؔ
مرے جذبات سارے بجھ رہے ہیں

غزل
دیے پلکوں کے سارے بجھ رہے ہیں
خورشید افسر بسوانی