دیئے منڈیروں کے روشن قطار ہونے لگے
لویں تراشنے والے فرار ہونے لگے
دبیز پردوں پہ مانوس لہریں اٹھنے لگی
ہوا کے ہاتھ دریچوں سے پار ہونے لگے
عدو بھی بھرنے لگے دم تری رفاقت کا
اب ایسے ویسے تماشے بھی یار ہونے لگے
اب آنے والی کسی رت کا انتظار ہو کیا
جڑوں سے اپنی شجر داغ دار ہونے لگے
فلک کے پرزے اب اڑنے میں کوئی دیر نہیں
پہاڑ سرکے زمینوں میں غار ہونے لگے
کھلا محاذ تو ہوگی ہماری پسپائی
ہم اپنے خوف دروں کا شکار ہونے لگے
سفر ہے سخت بہت سخت اگلے موڑ کے بعد
چمک رہے تھے جو منظر غبار ہونے لگے
نہ کوئی موج تماشا نہ عکس حیرت رمزؔ
ہمارے آئینے بے اعتبار ہونے لگے
غزل
دیئے منڈیروں کے روشن قطار ہونے لگے
محمد احمد رمز