دیے کی آنکھ سے جب گفتگو نہیں ہوتی
وہ میری رات کبھی سرخ رو نہیں ہوتی
ہوا کے لمس میں اس کی مہک بھی ہوتی ہے
وہ شاخ گل جو کہیں رو بہ رو نہیں ہوتی
کسے نصیب یہ شیرینئ لب و لہجہ
ہر ایک دشت میں یہ آب جو نہیں ہوتی
میں حرف حرف میں پیکر ترا سموتا ہوں
غزل تو ہوتی ہے پر ہو بہ ہو نہیں ہوتی
کبھی کبھی تو میں خود سے کلام کرتا ہوں
کبھی کبھی تو یہ لگتا ہے تو نہیں ہوتی
غزل
دیے کی آنکھ سے جب گفتگو نہیں ہوتی
اشرف یوسف