EN हिंदी
دیے کی آنکھ سے جب گفتگو نہیں ہوتی | شیح شیری
diye ki aankh se jab guftugu nahin hoti

غزل

دیے کی آنکھ سے جب گفتگو نہیں ہوتی

اشرف یوسف

;

دیے کی آنکھ سے جب گفتگو نہیں ہوتی
وہ میری رات کبھی سرخ رو نہیں ہوتی

ہوا کے لمس میں اس کی مہک بھی ہوتی ہے
وہ شاخ گل جو کہیں رو بہ رو نہیں ہوتی

کسے نصیب یہ شیرینئ لب و لہجہ
ہر ایک دشت میں یہ آب جو نہیں ہوتی

میں حرف حرف میں پیکر ترا سموتا ہوں
غزل تو ہوتی ہے پر ہو بہ ہو نہیں ہوتی

کبھی کبھی تو میں خود سے کلام کرتا ہوں
کبھی کبھی تو یہ لگتا ہے تو نہیں ہوتی