دئے جلا کے ہواؤں کے منہ پہ مار آیا
کوئی تو ہے جو اندھیروں کا قرض اتار آیا
خدا سے جب بھی کڑی دھوپ کی شکایت کی
تو میری راہ میں ایک پیڑ سایہ دار آیا
کہاں ہوئی کبھی اس سے ہماری دید و شنید
ہوا کے رتھ پہ ہمیشہ ہی وہ سوار آیا
سکون بانٹتی پھرتی ہوں میں زمانے میں
نہ جانے کیوں مرے حصے میں انتشار آیا
ہزار بار مرا درد مسکرائے گا
ہزار بار اگر موسم بہار آیا
سبب میں ڈھونڈ رہی تھی مری اداسی کا
ترا خیال مجھے آج بار بار آیا
کیا ہے اس نے ہی غارت مرا سکون مگر
اسی کے نام پہ رخشاںؔ مجھے قرار آیا

غزل
دئے جلا کے ہواؤں کے منہ پہ مار آیا
رخشاں ہاشمی