دیا سا دل کے خرابے میں جل رہا ہے میاں
دیے کے گرد کوئی عکس چل رہا ہے میاں
یہ روح رقص چراغاں ہے اپنے حلقے میں
یہ جسم سایہ ہے اور سایہ ڈھل رہا میاں
یہ آنکھ پردہ ہے اک گردش تحیر کا
یہ دل نہیں ہے بگولہ اچھل رہا ہے میاں
کبھی کسی کا گزرنا کبھی ٹھہر جانا
مرے سکوت میں کیا کیا خلل رہا ہے میاں
کسی کی راہ میں افلاک زیر پا ہوتے
یہاں تو پاؤں سے صحرا نکل رہا ہے میاں
ہجوم شوخ میں یہ دل ہی بے غرض نکلا
چلو کوئی تو حریفانہ چل رہا ہے میاں
تجھے ابھی سے پڑی ہے کہ فیصلہ ہو جائے
نہ جانے کب سے یہاں وقت ٹل رہا ہے میاں
طبیعتوں ہی کے ملنے سے تھا مزہ باقی
سو وہ مزہ بھی کہاں آج کل رہا ہے میاں
غموں کی فصل میں جس غم کو رائیگاں سمجھیں
خوشی تو یہ ہے کہ وہ غم بھی پھل رہا ہے میاں
لکھا نصیرؔ نے ہر رنگ میں سفید و سیاہ
مگر جو حرف لہو میں مچل رہا ہے میاں
غزل
دیا سا دل کے خرابے میں جل رہا ہے میاں
نصیر ترابی