EN हिंदी
دیا رشک آشفتہ حالوں نے مارا | شیح شیری
diya rashk aashufta-haalon ne mara

غزل

دیا رشک آشفتہ حالوں نے مارا

میلہ رام وفاؔ

;

دیا رشک آشفتہ حالوں نے مارا
ترے حسن پر مرنے والوں نے مارا

کبھی دل کا ماتم کبھی آرزو کا
مجھے نت نئے مرنے والوں نے مارا

ہوا خون سینے میں دل حسرتوں سے
تمنائیں بن کر خیالوں نے مارا

ترا ہی خیال ان کو آٹھوں پہر ہے
مجھے میرے ہی ہم خیالوں نے مارا

وہی ہے اگر اے وفا نظم ہستی
تو کیا معرکہ مرنے والوں نے مارا