دیا رشک آشفتہ حالوں نے مارا
ترے حسن پر مرنے والوں نے مارا
کبھی دل کا ماتم کبھی آرزو کا
مجھے نت نئے مرنے والوں نے مارا
ہوا خون سینے میں دل حسرتوں سے
تمنائیں بن کر خیالوں نے مارا
ترا ہی خیال ان کو آٹھوں پہر ہے
مجھے میرے ہی ہم خیالوں نے مارا
وہی ہے اگر اے وفا نظم ہستی
تو کیا معرکہ مرنے والوں نے مارا
غزل
دیا رشک آشفتہ حالوں نے مارا
میلہ رام وفاؔ