EN हिंदी
دیا جلائے گی تو اور میں بجھاؤں گا | شیح شیری
diya jalaegi tu aur main bujhahunga

غزل

دیا جلائے گی تو اور میں بجھاؤں گا

عارف اشتیاق

;

دیا جلائے گی تو اور میں بجھاؤں گا
مجھے نہ چاہ میں نفرت سے پیش آؤں گا

میں سخت دل ہی رہوں گا یہی رعایت ہے
میں بار بار ترا دل نہیں دکھاؤں گا

مجھے پتا نہیں کیا ہو گیا ہے کچھ دن سے
پتا چلا بھی تو تجھ کو نہیں بتاؤں گا

میں چاہتا ہوں مری بات کا اثر کم ہو
زیادہ دیر مگر جھوٹ کہہ نہ پاؤں گا

ہنسی کی بات ہے اپنی ہی اور وہ یہ کہ
مرا خیال تھا میں تجھ کو بھول جاؤں گا