دنوں میں دن تھے شبوں میں شبیں پڑی ہوئی تھیں
سبھی کہانیاں اک طاق میں پڑی ہوئی تھیں
اذان گونجی تو محراب میں کوئی بھی نہ تھا
بس ایک رحل پہ کچھ آیتیں پڑی ہوئی تھیں
سنائی دیتا ہے اب بھی مقدس آگ کے گرد
وہ لحن جس میں کئی حیرتیں پڑی ہوئی تھیں
مجھے نوازا تو پیشانی پر لکھا اس نے
وہ نام جس میں سبھی نسبتیں پڑی ہوئی تھیں
چراغ اوندھے پڑے تھے زمین پر سارے
اور ان کے پاس میں ان کی لویں پڑی ہوئی تھیں
نہ برگ و بار ہی لائے نہ سائباں ہوئے ترکؔ
ہماری شاخوں پہ کیسی گرہیں پڑی ہوئی تھیں
غزل
دنوں میں دن تھے شبوں میں شبیں پڑی ہوئی تھیں
ضیاء المصطفیٰ ترکؔ