دن وصل کے رنج شب غم بھول گئے ہیں
یہ خوش ہیں کہ اپنے تئیں ہم بھول گئے ہیں
ان وعدہ فروشوں سے کیا کیجیے شکوہ
کھا کھا کے مرے سر کی قسم بھول گئے ہیں
جس دن سے گئے اپنی خبر تک نہیں بھیجی
شاید ہمیں یارانۂ عدم بھول گئے ہیں
کاٹی ہیں مہینوں ہی تری یاد میں راتیں
غفلت میں تجھے گر کوئی دم بھول گئے ہیں
یا راحت و رنج اب ہے مساوات ہمیں کو
یا آپ ہی کچھ طرز ستم بھول گئے ہیں
کچھ ہوش ٹھکانے ہوں تو لیں نام کسی کا
ہم دے کے کہیں دل کی رقم بھول گئے ہیں
گو برسر پرخاش ہے مسرورؔ سے تو اب
کیا اس کو ترے لطف و کرم بھول گئے ہیں
غزل
دن وصل کے رنج شب غم بھول گئے ہیں
شیخ میر بخش مسرور