دن رات کس کی یاد تھی کیسا ملال تھا
صدقے میں کچھ تو بول تو کیا تجھ پہ حال تھا
چھوٹا ترا مریض اگر مر گیا کہ شوخ
جو دم تھا زندگی کا سو اس پر وبال تھا
ناخن ترے کی مہندی سے تنہا نہیں ہیں داغ
چندے شفق سے نعل در آتش ہلال تھا
اس سوچ سے کھلی ہے حقیقت کہ ایک عمر
مکھی کی فرج و شیخ کی داڑھی کا بال تھا
کو چشم فہم تاکہ نظر آئے یہ کہ یاں
دیکھا جو کچھ سو خواب جو سمجھا خیال تھا
جھگڑا مرا کیا ہی نہ تیں صاف ورنہ شوخ
ذرہ زباں پہ تیغ کی یہ انفصال تھا
قائمؔ میں ریختہ کو دیا خلعت قبول
ورنہ یہ پیش اہل ہنر کیا کمال تھا
غزل
دن رات کس کی یاد تھی کیسا ملال تھا
قائم چاندپوری