دن لے کے جاؤں ساتھ اسے شام کر کے آؤں
بے کار کے سفر میں کوئی کام کر کے آؤں
بے مول کر گئیں مجھے گھر کی ضرورتیں
اب اپنے آپ کو کہاں نیلام کر کے آؤں
میں اپنے شور و شر سے کسی روز بھاگ کر
اک اور جسم میں کہیں آرام کر کے آؤں
کچھ روز میرے نام کا حصہ رہا ہے وہ
اچھا نہیں کہ اب اسے بد نام کر کے آؤں
انجمؔ میں بد دعا بھی نہیں دے سکا اسے
جی چاہتا تو تھا وہاں کہرام کر کے آؤں
غزل
دن لے کے جاؤں ساتھ اسے شام کر کے آؤں
انجم سلیمی