دن کو تھے ہم اک تصور رات کو اک خواب تھے
ہم سمندر ہو کے بھی اس کے لئے پایاب تھے
سرد سے مرمر پہ شب کو جو ابھارے تھے نقوش
صبح کو دیکھا تو سب عکس ہنر نایاب تھے
وہ علاقے زندگی بھر جو نمی مانگا کئے
کل گھٹائیں چھائیں تو دیکھا کہ زیر آب تھے
اک کرن بھی عہد میں ان کے نہ بھولے سے ملی
دن کے جو سورج تھے اپنے رات کے مہتاب تھے
آج ان پیڑوں پہ سورج کی کرن رکتی نہیں
کل یہی تھے بار آور کل یہی شاداب تھے
اب کھلا کہ بوندیاں موتی ہیں ڈھلتی تھیں کہاں
ہم جو ڈوبے ہاتھ اپنے گوہر نایاب تھے
کوئی اپنی بھی حقیقت مل کے دریا سے شفقؔ
چھوٹے چھوٹے اپنے نالے کس قدر بیتاب تھے
غزل
دن کو تھے ہم اک تصور رات کو اک خواب تھے
فاروق شفق