دن کے پہلے پہر میں ہی اپنا بستر چھوڑ کر
روشنی نکلی ہے نیند اپنی فلک پر چھوڑ کر
وہ مصور در مصور کھو رہی ہے اپنے رنگ
اک دھنک بھٹکی ہے کتنا اپنا عنبر چھوڑ کر
وقت ہے اب بھی منا لوں چل کے اس کو ایک دن
گھر نکل جائے گا ورنہ ایک دن گھر چھوڑ کر
آنسوؤ تھوڑی مدد مجھ کو تمہاری چاہئے
غم چلے جائیں گے ورنہ دل کو بنجر چھوڑ کر
خواب آنکھیں چھوڑ کر کہیے کہاں جائیں گے اب
سلوٹیں کیا مر نہیں جائیں گی چادر چھوڑ کر
لہر بن کر اس نے تھوڑی دور تک پیچھا کیا
جا رہا تھا اپنا دریا اک شناور چھوڑ کر
جل اٹھیں گے پاؤں آتشؔ ان کے چھوتے ہی زمیں
خواب گر اترے مری آنکھوں کا بستر چھوڑ کر

غزل
دن کے پہلے پہر میں ہی اپنا بستر چھوڑ کر
سوپنل تیواری