دن کا ملال شام کی وحشت کہاں سے لائیں
زر زادگان شہر محبت کہاں سے لائیں
صرف شمار دولت دنیا ہوئے جو لوگ
وہ نامراد دل کی امارت کہاں سے لائیں
سارا لہو تو صرف شمار و عدو ہوا
شام فراق یار کی اجرت کہاں سے لائیں
وہ جن کے دل کے ساتھ نہ دھڑکا ہو کوئی دل
زندہ بھی ہیں تو اس کی شہادت کہاں سے لائیں
دو حرف اپنے دل کی گواہی کے واسطے
کہنا بھی چاہتے ہوں تو جرأت کہاں سے لائیں
بے چہرہ لوگ چہرہ دکھانے کے شوق میں!
آئینے مانگ لائے ہیں حیرت کہاں سے لائیں
اپنے ہی نقش پا کے عقیدت گزار لوگ
کچھ اور دیکھنے کو بصارت کہاں سے لائیں
کچھ زر گران شہر نے اہل کمال کا
چہرہ بنا لیا قد و قامت کہاں سے لائیں
اجڑے نہیں کبھی وہ جو ٹوٹے نہیں کبھی
وہ لوگ حرف لکھنے کی قوت کہاں سے لائیں
جب در ہی بند ہوں کوئی خوشبو کہاں سے آئے
گر لفظ لکھ بھی دیں تو حلاوت کہاں سے لائیں
غزل
دن کا ملال شام کی وحشت کہاں سے لائیں
رضی اختر شوق