دن اک کے بعد ایک گزرتے ہوئے بھی دیکھ
اک دن تو اپنے آپ کو مرتے ہوئے بھی دیکھ
ہر وقت کھلتے پھول کی جانب تکا نہ کر
مرجھا کے پتیوں کو بکھرتے ہوئے بھی دیکھ
ہاں دیکھ برف گرتی ہوئی بال بال پر
تپتے ہوئے خیال ٹھٹھرتے ہوئے بھی دیکھ
اپنوں میں رہ کے کس لیے سہما ہوا ہے تو
آ مجھ کو دشمنوں سے نہ ڈرتے ہوئے بھی دیکھ
پیوند بادلوں کے لگے دیکھ جا بہ جا
بگلوں کو آسمان کترتے ہوئے بھی دیکھ
حیران مت ہو تیرتی مچھلی کو دیکھ کر
پانی میں روشنی کو اترتے ہوئے بھی دیکھ
اس کو خبر نہیں ہے ابھی اپنے حسن کی
آئینہ دے کے بنتے سنورتے ہوئے بھی دیکھ
دیکھا نہ ہوگا تو نے مگر انتظار میں
چلتے ہوئے سمے کو ٹھہرتے ہوئے بھی دیکھ
تعریف سن کے دوست سے علویؔ تو خوش نہ ہو
اس کو تری برائیاں کرتے ہوئے بھی دیکھ
غزل
دن اک کے بعد ایک گزرتے ہوئے بھی دیکھ
محمد علوی