EN हिंदी
دن ہی ملئے گا یا شب آئیے گا | شیح شیری
din hi miliyega ya shab aaiyega

غزل

دن ہی ملئے گا یا شب آئیے گا

قائم چاندپوری

;

دن ہی ملئے گا یا شب آئیے گا
بندہ خانہ میں پھر کب آئیے گا

لگ چلی ہی سی ہے ابھی تو خیال
ڈھب چڑھے گا تو کچھ ڈھبائیے گا

ایک بوسہ پہ دین و دل تو لیا
اور کتنا مجھے دبائیے گا

جا چکے ہم جب آپ سے پیارے
کیوں نہ اس راہ سے اب آئیے گا

ہم بھی ملا سے کچھ کریں گے شروع
آپ کس وقت مکتب آئیے گا

کر لے کرنی جو ہے خرید و فروخت
پھیر اس پینٹھ میں کب آئیے گا

اب تو قائمؔ ہے کوچ ہی کی صلاح
یوں گھر اپنا ہے پھر جب آئیے گا