دن گزر جاتا ہے پر رات سے جی ڈرتا ہے
چھت شکستہ ہو تو برسات سے جی ڈرتا ہے
پھول شاخوں پہ بھی مرجھا کے بکھر جاتے ہیں
تو ہو گر ساتھ ترے ساتھ سے جی ڈرتا ہے
آبگینے میں تعلق کے نہ بال آئے کہیں
بات کرتے ہوئے ہر بات سے جی ڈرتا ہے
چاندنی راتیں نہ آئیں یہ دعا کرتا ہوں
اب تو گزرے ہوئے لمحات سے جی ڈرتا ہے
پھر تمازت ترے پہلو کی جگا دیتی ہے
نیند میں بھی تری اس گھات سے جی ڈرتا ہے

غزل
دن گزر جاتا ہے پر رات سے جی ڈرتا ہے
مرغوب علی