EN हिंदी
دن گزر جاتا ہے پر رات سے جی ڈرتا ہے | شیح شیری
din guzar jata hai par raat se ji Darta hai

غزل

دن گزر جاتا ہے پر رات سے جی ڈرتا ہے

مرغوب علی

;

دن گزر جاتا ہے پر رات سے جی ڈرتا ہے
چھت شکستہ ہو تو برسات سے جی ڈرتا ہے

پھول شاخوں پہ بھی مرجھا کے بکھر جاتے ہیں
تو ہو گر ساتھ ترے ساتھ سے جی ڈرتا ہے

آبگینے میں تعلق کے نہ بال آئے کہیں
بات کرتے ہوئے ہر بات سے جی ڈرتا ہے

چاندنی راتیں نہ آئیں یہ دعا کرتا ہوں
اب تو گزرے ہوئے لمحات سے جی ڈرتا ہے

پھر تمازت ترے پہلو کی جگا دیتی ہے
نیند میں بھی تری اس گھات سے جی ڈرتا ہے