EN हिंदी
دن ڈھلا شام ہوئی پھول کہیں لہرائے | شیح شیری
din Dhala sham hui phul kahin lahrae

غزل

دن ڈھلا شام ہوئی پھول کہیں لہرائے

سید عابد علی عابد

;

دن ڈھلا شام ہوئی پھول کہیں لہرائے
سانپ یادوں کے مہکتے ہوئے ڈسنے آئے

وہ کڑی دھوپ کے دن وہ تپش راہ وفا
وہ سواد شب گیسو کے گھنیرے سائے

دولت طبع سخن گو ہے امانت اس کی
جب تری چشم سخن ساز طلب فرمائے

جستجوئے غم دوراں کو خرد نکلی تھی
کہ جنوں نے غم جاناں کے خزینے پائے

سب مجھے مشورۂ ترک وفا دیتے ہیں
ان کا ایما بھی ہو شامل تو مزہ آ جائے

کیا کہوں دل نے کہاں سینت کے رکھا ہے اسے
نہ کبھی بھولنے پاؤں نہ مجھے یاد آئے

میں نے حافظ کی طرح طے یہ کیا ہے عابدؔ
بعد ازیں مے نہ خورم بے کف بزم آرائے