EN हिंदी
دن ڈھلا جاتا ہے شام آتی ہے گھبراتا ہوں میں | شیح شیری
din Dhala jata hai sham aati hai ghabraata hun main

غزل

دن ڈھلا جاتا ہے شام آتی ہے گھبراتا ہوں میں

نذیر بنارسی

;

دن ڈھلا جاتا ہے شام آتی ہے گھبراتا ہوں میں
ڈوبتا جاتا ہے سورج ڈوبتا جاتا ہوں میں

اک ٹھکانہ تھا جہاں بہلا لیا کرتا تھا دل
آج اس محفل کو بھی زیر و زبر پاتا ہوں میں

آ گئی ہے یاد آج اپنے دل مرحوم کی
ساری دنیا سوگ میں ڈوبی ہوئی پاتا ہوں میں

میری گزری زندگی آواز دیتی ہے مجھے
اے مغنی بند کر نغمہ کہ گھبراتا ہوں میں

رفتہ رفتہ عشق اس منزل میں لایا ہے مجھے
درد اٹھتا ہے کسی کو اور تڑپ جاتا ہوں میں

تم وہی محفل وہی محفل کی رعنائی وہی
ان دنوں کچھ اپنے ہی کو دوسرا پاتا ہوں میں

یہ سفیدی ہے سحر کی یا تمنا کا کفن
ہائے کیا پانا تھا کیا وقت سحر پاتا ہوں میں

روشنی دیتا ہوں سب کو اک بجھے دل سے نذیرؔ
اپنی سرد آہوں سے ہر محفل کو گرماتا ہوں میں