دن بھر کے دہکتے ہوئے سورج سے لڑا ہوں
اب رات کے دریا میں پڑا ڈوب رہا ہوں
اب تک میں وہیں پر ہوں جہاں سے میں چلا ہوں
آواز کی رفتار سے کیوں بھاگ رہا ہوں
رکھتے ہو اگر آنکھ تو باہر سے نہ دیکھو
دیکھو مجھے اندر سے بہت ٹوٹ چکا ہوں
یہ سب تری مہکی ہوئی زلفوں کا کرم ہے
اک سانس میں اک عمر کے دکھ بھول گیا ہوں
تو جسم کے اندر ہے کہ باہر ہے کدھر ہے
علویؔ مری جاں کب سے تجھے ڈھونڈ رہا ہوں
غزل
دن بھر کے دہکتے ہوئے سورج سے لڑا ہوں
محمد علوی