دن بہت سفاک نکلا رات سب دکھ سہہ گئی
دانت میں انگلی دبائے شام تنہا رہ گئی
سنگ ریزوں کی طرح بکھری پڑی ہیں خواہشیں
دیکھتے ہی دیکھتے کس کی حویلی ڈھ گئی
صندلی خوابوں میں لپٹے تھے ہزاروں اژدہے
اور پھر تاثیر جسم و جاں میں تہہ در تہہ گئی
بے مروت ساعتوں کو روئیے کیوں عمر بھر
ایک شے آنکھوں میں جو رہتی تھی کب کی بہہ گئی
گھر کی دیواروں پہ سبزہ بن کے اگنا تھا مجھے
اک ہوا صحرا سے آئی کان میں کچھ کہہ گئی
غزل
دن بہت سفاک نکلا رات سب دکھ سہہ گئی
خورشید اکبر