EN हिंदी
دن بہ دن صفحۂ ہستی سے مٹا جاتا ہوں | شیح شیری
din-ba-din safha-e-hasti se miTa jata hun

غزل

دن بہ دن صفحۂ ہستی سے مٹا جاتا ہوں

سردار سلیم

;

دن بہ دن صفحۂ ہستی سے مٹا جاتا ہوں
ایک جینے کے لیے کتنا مرا جاتا ہوں

اپنے پیروں پہ کھڑا بولتا پیکر ہوں مگر
آہٹوں کی طرح محسوس کیا جاتا ہوں

تو بھی جیسے مری آنکھوں میں کھنچا جاتا ہے
میں بھی جیسے تری سانسوں سما جاتا ہوں

نور کی شاخ سے ٹوٹا ہوا پتا ہوں میں
وقت کی دھوپ میں معدوم ہوا جاتا ہوں

ساتھ چھوٹا تو کڑا وقت ضرور آئے گا
آپ کہتے ہیں تو بے شک میں چلا جاتا ہوں

حادثے جتنا مجھے دور کیے دیتے ہیں
اتنا منزل سے میں نزدیک ہوا جاتا ہوں

دیکھنے میں تو میں ذرہ نظر آتا ہوں سلیمؔ
دیکھتے دیکھتے خورشید پہ چھا جاتا ہوں