دن بہ دن گھٹتی ہوئی عمر پہ نازل ہو جائے
اک بدن اور مری روح کو حاصل ہو جائے
مورچے کھولتا رہتا ہوں سمندر کے خلاف
جس کو مٹنا ہے وہ آئے مرا ساحل ہو جائے
کھیل ہی کھیل میں چھو لوں میں کنارا اپنا
ایسے سوؤں کہ جگانا مجھے مشکل ہو جائے
لگ کے بیمار کے سینے سے نہ رونا ایسے
زندگانی کی طرح موت بھی مشکل ہو جائے
رکھ رہے ہیں ترے پتھر مرے زخموں کا حساب
اب یہ مجمع بھی مرے کشف کا قائل ہو جائے
اس قدر دیر نہ کرنا کہ یہ آسیب نگر
رات کا روپ لے اور جسم میں داخل ہو جائے
جنگ اپنوں سے ہے تو دل کو کنارے کر لوں
راستے میں یہی تلوار نہ حائل ہو جائے
غزل
دن بہ دن گھٹتی ہوئی عمر پہ نازل ہو جائے
نعمان شوق