دن اگر چڑھتا ادھر سے میں ادھر سے جاگتا
حسن سارا مشرقوں کا ساتھ میرے جاگتا
میں اگر ملتا نہ اس سے اس ازل کی شام میں
خواب ان دیوار و در کا دل میں کیسے جاگتا
ہے مثال باد گلشن جاگنا اس شوخ کا
رنگ جیسے دور کا رنگوں کے پیچھے جاگتا
اب وہ گھر باقی نہیں پر کاش اس تعمیر سے
ایک شہر آرزو آنکھوں کے آگے جاگتا
چاند چڑھتا دیکھنا بے حد سمندر پر منیرؔ
دیکھنا پھر بحر کو اس کی کشش سے جاگتا
غزل
دن اگر چڑھتا ادھر سے میں ادھر سے جاگتا
منیر نیازی