EN हिंदी
دلوں پر خوف بھی طاری بہت ہے | شیح شیری
dilon par KHauf bhi tari bahut hai

غزل

دلوں پر خوف بھی طاری بہت ہے

اسعد بدایونی

;

دلوں پر خوف بھی طاری بہت ہے
مگر جنگوں کی تیاری بہت ہے

خرد کی بستیوں کے پھونکنے کو
جنوں کی ایک چنگاری بہت ہے

سبھی زد میں ہیں دشت و کوہ و انساں
یہ ضرب وقت ہے کاری بہت ہے

پرانا خشک پتا کہہ رہا تھا
ہوا میں تیز رفتاری بہت ہے

ہم اپنے دل کی دنیا دیکھتے ہیں
ہمیں یہ شغل بیکاری بہت ہے

چلے ہو اس سے ملنے پر یہ سن لو
اسے شوق دل آزاری بہت ہے

نہیں ہے ساتھ رہنا گرچہ آساں
بچھڑنے میں بھی دشواری بہت ہے