دلوں میں خار لبوں پر گلہ ملے گا مجھے
خفا رہے گا زمانہ تو کیا ملے گا مجھے
یہ کیا خبر تھی ملاقات ان سے ہوگی اگر
نظر سے تا بہ نظر فاصلہ ملے گا مجھے
طلسم تیرگئی شب کہیں تو ٹوٹے گا
کوئی چراغ کہیں تو جلا ملے گا مجھے
بہار باغ تمنا کوئی تو دیکھے گا
کبھی تو دل میں کوئی جھانکتا ملے گا مجھے
زمانہ ہوگا ترے ساتھ رہگزر میں جہاں
مٹا مٹا سا ترا نقش پا ملے گا مجھے
ڈریں گے لوگ وفا کے خیال سے نظمیؔ
مری وفاؤں کا جس دن صلہ ملے گا مجھے
غزل
دلوں میں خار لبوں پر گلہ ملے گا مجھے
نظمی سکندری آبادی