دلوں میں بغض کے خانے نہ ہوتے
تو اپنے لوگ بیگانے نہ ہوتے
وفا کو ڈھونڈتی پھرتی یہ دنیا
اگر ہم جیسے دیوانے نہ ہوتے
نہ ہم کو غم اگر آتا میسر
تو لطف زندگی جانے نہ ہوتے
کہاں تھا ہم سے رندوں کا ٹھکانہ
اگر بستی میں مے خانے نہ ہوتے
نہ لٹتے ہم اگر یارو لٹیرے
ہمارے جانے پہچانے نہ ہوتے
کہاں ہم بوجھ دل کا کرتے ہلکا
جو رونے کو ترے شانے نہ ہوتے
زبان حال پر اچھا تھا گوہرؔ
اگر ماضی کے افسانے نہ ہوتے

غزل
دلوں میں بغض کے خانے نہ ہوتے
تنویر گوہر