دلوں میں بار یقین و گماں اٹھائے ہوئے
رواں ہے رخت سفر کارواں اٹھائے ہوئے
کوئی تو ہے پس دیوار گلستاں جس کے
نظارہ جو ہیں شجر ایڑیاں اٹھائے ہوئے
مری مثال پرانے شجر کی ہے دل پر
ہزار باغ بہار و خزاں اٹھائے ہوئے
فسون صحبت شب میں تو نیند ٹلتی رہی
پھروں گا دن کو یہ بار گراں اٹھائے ہوئے
ترے خیال کو پھرتا ہوں یوں لئے جیسے
زمین سر پہ پھرے آسماں اٹھائے ہوئے
نہ جانے جسم کے ساحل پہ اب سفینۂ جاں
کس انتظار میں ہے بادباں اٹھائے ہوئے

غزل
دلوں میں بار یقین و گماں اٹھائے ہوئے
خورشید رضوی