EN हिंदी
دلوں میں آگ لبوں پر گلاب رکھتے ہیں | شیح شیری
dilon mein aag labon par gulab rakhte hain

غزل

دلوں میں آگ لبوں پر گلاب رکھتے ہیں

راحتؔ اندوری

;

دلوں میں آگ لبوں پر گلاب رکھتے ہیں
سب اپنے چہروں پہ دوہری نقاب رکھتے ہیں

ہمیں چراغ سمجھ کر بجھا نہ پاؤ گے
ہم اپنے گھر میں کئی آفتاب رکھتے ہیں

بہت سے لوگ کہ جو حرف آشنا بھی نہیں
اسی میں خوش ہیں کہ تیری کتاب رکھتے ہیں

یہ مے کدہ ہے وہ مسجد ہے وہ ہے بت خانہ
کہیں بھی جاؤ فرشتے حساب رکھتے ہیں

ہمارے شہر کے منظر نہ دیکھ پائیں گے
یہاں کے لوگ تو آنکھوں میں خواب رکھتے ہیں