دلوں کے زخم بھرتے کیوں نہیں ہیں
ہم اس پر غور کرتے کیوں نہیں ہیں
دغا دے کر نکل جاتی ہے آگے
خوشی سے لوگ ڈرتے کیوں نہیں ہیں
تجارت کیوں ادھوری ہے ہماری
ہمارے ناپ بھرتے کیوں نہیں ہیں
کسی نے بھی نہ پوچھا دشمنوں سے
محبت آپ کرتے کیوں نہیں ہیں
ہماری زندگی ہے موت جیسی
یہی سچ ہے تو مرتے کیوں نہیں ہیں
نظر اوروں پہ کیوں رہتی ہے حارثؔ
ہم اپنا کام کرتے کیوں نہیں ہیں

غزل
دلوں کے زخم بھرتے کیوں نہیں ہیں
عبید حارث