دلوں کے مابین شک کی دیوار ہو رہی ہے
تو کیا جدائی کی راہ ہموار ہو رہی ہے
ذرا سا مجھ کو بھی تجربہ کم ہے راستے کا
ذرا سی تیری بھی تیز رفتار ہو رہی ہے
ادھر سے بھی جو چاہیے تھا نہیں ملا ہے
ادھر ہماری بھی عمر بے کار ہو رہی ہے
شدید گرمی میں کیسے نکلے وہ پھول چہرہ
سو اپنے رستے میں دھوپ دیوار ہو رہی ہے
بس اک تعلق نے میری نیندیں اڑا رکھی ہیں
بس اک شناسائی جاں کا آزار ہو رہی ہے
یہاں سے قصہ شروع ہوتا ہے قتل و خوں کا
یہاں سے یہ داستاں مزے دار ہو رہی ہے
یہ لوگ دنیا کو کس طرف لے کے جا رہے ہیں
یہ لوگ جن کی زبان تلوار ہو رہی ہے
غزل
دلوں کے مابین شک کی دیوار ہو رہی ہے
شکیل جمالی