EN हिंदी
دلوں کے بیچ بدن کی فصیل اٹھا دی جائے | شیح شیری
dilon ke beach badan ki fasil uTha di jae

غزل

دلوں کے بیچ بدن کی فصیل اٹھا دی جائے

اعزاز افصل

;

دلوں کے بیچ بدن کی فصیل اٹھا دی جائے
سمٹ رہی ہے مسافت ذرا بڑھا دی جائے

ہماری سمت کبھی زحمت سفر تو کرو
تمہاری راہ میں بھی کہکشاں بچھا دی جائے

بنی تو ہوگی کہیں سرحد گراں گوشی
تمہیں بتاؤ کہاں سے تمہیں صدا دی جائے

کسی کے کام تو آئے خلوص کی خوشبو
مزاج میں نہ سہی جسم میں بسا دی جائے

یہ سوچتے نہیں کیوں فاصلے طویل ہوئے
یہ پوچھتے ہیں کہ رفتار کیوں بڑھا دی جائے

یہ محویت نہ کہیں تجھ سے پھیر دے سب کو
تری طرف سے توجہ ذرا ہٹا دی جائے

تکلفات کی پر پیچ وادیاں کب تک
بہ راہ راست انہیں دعوت وفا دی جائے

سنی ہیں ہم نے بہت تیرگی پہ تقریریں
ملے نہ لفظ اگر روشنی بجھا دی جائے

گزرنے والی ہوا خود پتہ لگا لے گی
ذرا سی آگ کسی راکھ میں دبا دی جائے