دلبروں کے راز کا محرم ہوا
درد سے دل مثل جام جم ہوا
رات دن آنسو بہے ماتم ہوا
درد فرقت کا نہ لیکن کم ہوا
رہ گیا ہوں بن کے اک تصویر غم
غم کے ہاتھوں ہائے کیا عالم ہوا
زخم کھائے ایک مدت ہو گئی
سوز دل لیکن نہیں مدھم ہوا
درد الفت کی حسیں تشکیل میں
امتزاج شعلہ و شبنم ہوا
ایک اٹھنا تھا نگاہ ناز کا
دونوں عالم کا عجب عالم ہوا
پر خطر پر پیچ ہے راہ حیات
چل سکا جتنا بھی جس میں دم ہوا
پھر صبا میں ہے نئی دیوانگی
کیا مزاج زلف پھر برہم ہوا
وقت نے پیہم لگائے دل پہ زخم
وقت خود ہی ان کا پھر مرہم ہوا
آئی اک اللہ اکبر کی صدا
سر مرا پیش صنم جب خم ہوا
نارسا جتنے رہے نالے مرے
اس قدر ایماں مرا محکم ہوا
راز سے اہل ہوس ہیں منحرف
یہ بھی گویا سجدۂ آدم ہوا

غزل
دلبروں کے راز کا محرم ہوا
خلیل الرحمٰن راز