دل بر یہ وہ ہے جس نے دل کو دغا دیا ہے
اے چشم دیکھ تجھ کو میں نے سجھا دیا ہے
تیغ ستم سے میرا جو خوں بہا دیا ہے
قاتل نے میرے دل کا یہ خوں بہا دیا ہے
نقش قدم گلی کا تیری بنا دیا ہے
کیوں کر اٹھوں کہ دل نے مجھ کو بٹھا دیا ہے
اے چشم گر یہ زا ہے رونے کو تیرے زحمت
رو رو کے ابر کو بھی تو نے رلا دیا ہے
سر رشتۂ وفا سے کیا شمع رو ہیں واقف
ہم نے پتنگ ان سے ملنا اڑا دیا ہے
دل دے کے جان کا مفت اک روگ ہی خریدا
دولت سے تیری میں نے یہ کچھ لیا دیا ہے
جاتے نظر جدھر ہی اک نور جلوہ گر ہے
مکھڑے سے آج پردہ کسی نے اٹھا دیا ہے
تو پان کھا کے ہنسنا اک سہل سا ہے سمجھا
یہ برق وہ ہے جس نے عالم جلا دیا ہے
کیوں ہم سے ہو بگڑتے ہم نے تو شیخ صاحب
ہولی سے پیشتر ہی تم کو بنا دیا ہے
کیوں کر نہ میرے دل کا شیشہ ہو ٹکڑے ٹکڑے
نظروں سے اس کو ظالم تو نے گرا دیا ہے
پاؤں سے کیا جگایا تو نے ہی مجھ کو گویا
ٹھوکر سے بخت خفتہ میرا جگا دیا ہے
کیا جانوں عشق کیا ہے لیکن کسی نے احساںؔ
اک آگ کا سا شعلہ دل کو لگا دیا ہے
غزل
دل بر یہ وہ ہے جس نے دل کو دغا دیا ہے
عبدالرحمان احسان دہلوی