دلبر کہا رفیق کہا چارہ گر کہا
جو کچھ بھی تم کو ہم نے کہا سوچ کر کہا
وہ تم کہ ہم کو آج بھی مخلص نہ کہہ سکے
اور ہم نے ساری عمر تمہیں معتبر کہا
یہ رونقیں جہان کی منسوب تم سے کیں
پھر ان تجلیوں کو حریم نظر کہا
پرسش تری فریب تسلی تری فریب
وہ دل کی بات تھی جسے دنیا کا ڈر کہا
تیرے نقوش پا کو بتایا ہے کہکشاں
تیری گلی کے ذروں کو شمس و قمر کہا
سب مطمئن تھے دیکھ کے آزادیاں مری
میرے ضمیر نے مجھے بے بال و پر کہا
ان پر تو کوئی حرف نہ آنے دیا ضیاؔ
جو گزری اس کو گردش شام و سحر کہا

غزل
دلبر کہا رفیق کہا چارہ گر کہا
بختیار ضیا