دلا نہیں یہ مے سرخ فام شیشے میں
بھرا ہے شیشۂ جاں کا قوام شیشے میں
جو دوں شراب کو آب حیات سے تشبیہ
تو اتریں خضر علیہ السلام شیشے میں
خیال دل میں ہے ساقی کی چشم مے گوں کا
شراب جام میں ہے اور جام شیشے میں
شگاف دل میں بھرا مرہم مئے انگور
کیا ہے کیا ہی کرامت کا کام شیشے میں
میں خرق عادت پیر مغاں کا قائل ہوں
کہ بعد خرق کیا التیام شیشے میں
کھلا جو بزم میں مینا تو چاندنی چھٹکی
یہ دختر رز ہے کہ ماہ تمام شیشے میں
مذاقؔ ملتی ہے ان روزوں وقت شام شراب
رکھے ہے دختر رز کو صیام شیشے میں

غزل
دلا نہیں یہ مے سرخ فام شیشے میں
مذاق بدایونی