دل زلف بتاں میں ہے گرفتار ہمارا
اس دام سے ہے چھوٹنا دشوار ہمارا
بازار جہاں میں ہیں عجب جنس زبوں ہم
کوئی نہیں اے وائے خریدار ہمارا
تھی داور محشر سے توقع سو تجھے دیکھ
وہ بھی نہ ہوا ہائے طرف دار ہمارا
کیونکر نہ دم سرد بھریں ہم کہ ہر اک سے
ملتا ہے بہت گرم کچھ اب یار ہمارا
تجھ بن اسے یہ سمجھیں کہ ہے شعلۂ دوزخ
گر ہو گل جنت گل دستار ہمارا
راسخؔ یہ پس مرگ بھی ہم راہ رہے گا
ہے یار کا غم یار وفادار ہمارا
غزل
دل زلف بتاں میں ہے گرفتار ہمارا
راسخ عظیم آبادی