دل وہ کشت آرزو تھا جس کی پیمائش نہ کی
سیر دنیا کے سوا ہم نے کوئی خواہش نہ کی
موتیوں سے چشم و جاں کو آئنہ خانہ کیا
سیپ کے ٹکڑوں سے بام و در کی آرائش نہ کی
کس کو فرصت تھی کہ سنتا اس سفر کا ماجرا
جب اسی منزل نشیں کے ہونٹ نے جنبش نہ کی
اس نے جو بھی روپ دھارا اس نے جو بھی دکھ دیا
آدمی بننے کی ہم نے اس سے فرمائش نہ کی
کچھ قلم بندی سے مجھ کو عار تھا ورنہ نعیمؔ
کب مرے ابر نگہ نے فکر کی بارش نہ کی
غزل
دل وہ کشت آرزو تھا جس کی پیمائش نہ کی
حسن نعیم