EN हिंदी
دل وہ کشت آرزو تھا جس کی پیمائش نہ کی | شیح شیری
dil wo kisht-e-arzu tha jis ki paimaish na ki

غزل

دل وہ کشت آرزو تھا جس کی پیمائش نہ کی

حسن نعیم

;

دل وہ کشت آرزو تھا جس کی پیمائش نہ کی
سیر دنیا کے سوا ہم نے کوئی خواہش نہ کی

موتیوں سے چشم و جاں کو آئنہ خانہ کیا
سیپ کے ٹکڑوں سے بام و در کی آرائش نہ کی

کس کو فرصت تھی کہ سنتا اس سفر کا ماجرا
جب اسی منزل نشیں کے ہونٹ نے جنبش نہ کی

اس نے جو بھی روپ دھارا اس نے جو بھی دکھ دیا
آدمی بننے کی ہم نے اس سے فرمائش نہ کی

کچھ قلم بندی سے مجھ کو عار تھا ورنہ نعیمؔ
کب مرے ابر نگہ نے فکر کی بارش نہ کی