EN हिंदी
دل ان کی یاد سے جو بہلتا چلا گیا | شیح شیری
dil unki yaad se jo bahalta chala gaya

غزل

دل ان کی یاد سے جو بہلتا چلا گیا

رحمت الٰہی برق اعظمی

;

دل ان کی یاد سے جو بہلتا چلا گیا
غم آپ اپنی آگ میں جلتا چلا گیا

تو لا مکاں ہے تو مری منزل بھی بے نشاں
تیرے لئے چلا تو میں چلتا چلا گیا

کانٹے جہاں جہاں پہ ملے راہ عشق میں
دامن بچا بچا کے نکلتا چلا گیا

ناکامیوں سے کم نہ ہوا حوصلہ مرا
ٹھوکر لگی تو اور سنبھلتا چلا گیا

موجوں کے رخ کو پھیر دیا میں نے بارہا
طوفاں کا سر اٹھا تو کچلتا چلا گیا

یہ جان کر کہ غم ہے تری یاد کا سبب
میں ہر خوشی کو غم سے بدلتا چلا گیا

اہل زمانہ گرد کو میری نہ پا سکے
ہر قافلے سے دور نکلتا چلا گیا

اشیاء ہیں برقؔ سلسلۂ وحدت الوجود
سو سو طرح سے نام بدلتا چلا گیا